۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
عطر قرآن

حوزہ/ اس آیت کا پیغام مسلمانوں کو صبر و استقامت کی تعلیم دیتا ہے اور انہیں اس بات پر ایمان رکھنے کی تلقین کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت ہمیشہ حق کے ساتھ ہے، چاہے وقتی طور پر حالات کچھ بھی ہوں۔

حوزہ نیوز ایجنسی|

بسم الله الرحـــمن الرحــــیم

وَلَا يَحْزُنكَ الَّذِينَ يُسَارِعُونَ فِي الْكُفْرِ ۚ إِنَّهُمْ لَن يَضُرُّوا اللَّهَ شَيْئًا ۗ يُرِيدُ اللَّهُ أَلَّا يَجْعَلَ لَهُمْ حَظًّا فِي الْآخِرَةِ ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ

ترجمہ: "اور (اے نبی) جو لوگ کفر میں تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں، آپ ان سے غمگین نہ ہوں۔ بیشک وہ اللہ کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ اللہ چاہتا ہے کہ ان کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہ رکھے، اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔"

موضوع:

اللہ تعالیٰ نبی کریم (ص) کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ کفار کے گمراہ ہونے یا ان کے کفر میں جلدی کرنے پر پریشان نہ ہوں کیونکہ ان کا یہ عمل اللہ تعالیٰ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔

پس منظر:

کفار، خصوصاً مکہ کے مشرکین، اس موقع پر مسلمانوں کی شکست پر خوشی منا رہے تھے اور اس بات کو بڑھا چڑھا کر بیان کر رہے تھے کہ ان کی سرکشی اور کفر کامیاب ہو رہا ہے۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ ان کی کامیابی ان کے صحیح راستے پر ہونے کی دلیل ہے۔ اس پر نبی اکرم (ص) اور اصحاب رسول کو دلی طور پر غم و پریشانی ہوئی۔

تفسیر:

اللہ کی تسلی:اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے ذریعے نبی کریم (ص) اور مسلمانوں کو تسلی دی کہ کفار کا کفر میں تیزی سے آگے بڑھنا یا ان کی ظاہری کامیابی اللہ کی مرضی کے خلاف کچھ نہیں کر سکتی۔ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ آخرت میں ہوگا اور کفار کے لیے وہاں کوئی نجات یا کامیابی نہیں ہے۔

یہ آیت اس بات کو واضح کرتی ہے کہ دنیاوی زندگی میں کامیابی یا ناکامی اصل معیار نہیں ہے؛ اصل کامیابی آخرت میں اللہ کی رضا اور جنت کی صورت میں ہے۔

نتیجہ

اس آیت کا پیغام مسلمانوں کو صبر و استقامت کی تعلیم دیتا ہے اور انہیں اس بات پر ایمان رکھنے کی تلقین کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت ہمیشہ حق کے ساتھ ہے، چاہے وقتی طور پر حالات کچھ بھی ہوں۔

•┈┈•┈┈•⊰✿✿⊱•┈┈•┈┈•

تفسیر راھنما، سورہ آل عمران

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .